رسیدی ٹکٹ کا جس وقت ہندی اور انگریزی میں ترجمہ ہو رہا تھا، میرے کئی ماہ اس کی پکڑ میں رہے۔ اس لیے کئی حصے نئے لکھے گئے جو اِن زبانوں کے تراجم میں تو شامل ہو گئے لیکن پنجابی میں، اس کتاب کے چھپ چکنے کے باعث رہ گئے۔ وہ نئے اوراق اب اس نئے ایڈیشن میں شامل کر رہی ہوں۔
سوچتی تھی، نظموں کو بھی ان کے وقتِ تصنیف اور محرک کے تذکرہ کے ساتھ شامل کر سکوں لیکن پھر رسیدی ٹکٹ کو چھاپ سکنا میرے بس سے باہر ہو جاتا۔ اس لیے اس خیال کو مَیں نے دو مزید حصص میں تقسیم کر دیا۔ ’’میں جمع میں‘‘ اور ’’مَیں جمع دُنیا‘‘ میں، جن میں سے ایک جلد میں صرف وہ نظمیں ہیں (محرک واقعہ اور وقت سمیت) جو ایک ہستی کے متعلق ہیں، یعنی میرے ’’تم‘‘ سے اور دوسری جلد میں صرف وہ جو دُنیا میں پیش آ رہے ہیں، واقعات سے منسلک ہیں۔
’’مَیں‘‘ کے بغیر نہ ’’تم‘‘ کے معنی نکلتے ہیں، نہ دُنیا کے۔ یہ ’’مَیں‘‘ کے آگے ’’تم‘‘ کا سفر ہوتا ہے اور ’’تم‘‘ کے آگے اپنی کائنات کا۔
دونوں حالتوں میں یہ ’’مَیں‘‘ کی وسعت کا سفر ہوتا ہے۔ وہ کتاب ’’میں جمع میں‘‘ (سمیت میں جمع دُنیا کے) علیحدہ سے چھپی ہے اور یہ رسیدی ٹکٹ الگ ہے لیکن دونوں ایک دوسری کی تکمیل ہیں۔
میں نے اس زندگی میں دو بار محبت کی ہے۔ پہلی ساحر سے، اور دوسری امروز سے۔
ساحر کو میں نے آج سے تقریباً پینتالیس برس پہلے، پریت نگر ضلع امرتسر کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا۔ میں نے اپنی کتاب ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں اس ملاقات کا ذکر لکھا ہوا ہے کہ اگلے روز جب ہم سب نے پریت نگر سے واپس لاہور پہنچنا تھا، اور ہم کو جو بس ملی تھی، وہ ایک نزدیکی گاؤں لوپوکی سے ملنی تھی، جہاں تک ہم سب نے پیدل چل کر جانا تھا۔ اور وہ راستہ چلتے ہوئے میں کتنا ہی فاصلہ اس جگہ پر چلتی رہی، جہاں ساحر کے جسم کا ایک لمبا سایہ پڑ رہا تھا۔ اور اس کے بعد …. برسوں تک مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میں ہمیشہ اس کے سائے میں چلتی رہی ہوں۔
یہ اس زندگی کی وہ حقیقت تھی، جو میں نے بسر کی تھی، اور لکھی تھی۔ لیکن یہ کس جنم کا سایہ تھا، اب جس سائے میں مَیں چل رہی تھی، یہ نہیں جانا۔ یہ میں نے 1983ء کی 5 جنوری کی رات کو جانا، جب گزشتہ جنم کو دیکھتے، میں نے اس محل کے راجے کی صورت میں ساحر کو دیکھا، جہاں 8 مارچ والے دن اس کی بیوی کی صورت میں مَیں نے قدم رکھا تھا، اور 29 دسمبر والے دن مجھے ایک عورت نے زہر کا پیالہ دے کر مروا دیا تھا۔
امرتاپریتم
Reviews
There are no reviews yet.